حضورسید المرسلین، خاتم النبین،فخرِ کون ومکاں،تخلیقِ کون و مکاں حضرت محمدِ مصطفیٰ ﷺ

حضورسید المرسلین، خاتم النبین،فخرِ کون ومکاں،تخلیقِ کون و مکاں حضرت محمدِ مصطفیٰ ﷺ

20 Beautiful Pictures of Roza e Rasool (S.A.W) | Masjid, Mosque, Madina

حضورسید المرسلین، خاتم النبین،فخرِ کون ومکاں،تخلیقِ کون و مکاں حضرت محمدِ مصطفیٰ ﷺ

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور پاک ﷺ کے بارے میں سب سے پہلے پیش گوئی کی اور یہ پیش گوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ۳۰۰۰(3000) سال قبل مسیح(ق۔م) کی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں پیش گوئی کی:’’وہ عربی ہو گا۔اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کا ہاتھ اس کے خلاف ہو گاوہ اپنے بہن بھائیوں کے درمیان بود و باش کرے گا۔‘‘ 

حضور پاک ﷺ کے والد ماجد کا نام عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔آپ کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا۔آپ کی شادی ۲۴ سال کی عمر میں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ہوئی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شادی کے بعد تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا تھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ۲۵ سال کی عمر میں ہوا۔ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ۱۲ ربیع الاول (۲۲ اپریل ۵۷۱ء( بروز سوموار کو ہوئی۔ جب آپ ﷺ کی عمر مبارک ۶ برس ہوئی تو نبی کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ کا وصال ’’ابواء‘‘کے مقام پر ہوا۔یہ مقام تقریباً مدینہ شریف سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔حضور پاک ﷺ کی والدہ ماجدہ کا وصال ۳۰ سال کی عمر میں ہوا۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کے وصال کے بعد حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کو ابواء کے مقام سے مکہ معظمہ لے کر آئی تھی۔آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ’’یہ میری والدہ کے بعد میری ماں ہے۔‘‘ 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ ﷺکی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ  اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نئے سردار حضرت ابو طالب نے سر انجام دیں۔

تقریباً25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ ﷺ کو شادی کا پیغام بھجوا دیا۔آپ ﷺ نے حضرت ابو طالب کے مشورے سے یہ پیغام قبول کر لیا۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر ۲۵ سال تھی۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غور و فکر کے لیے مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے۔اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباًًً چالیس برس تھی۔

آپ ﷺ پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لے کر آنے والی عورت آپ ﷺ کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں اور مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ اور بچوں میں حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ 

620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔

622ء تک مسلمانوں کا مکہ مکرمہ میں رہنا نا ممکن ہو چکا تھا۔کفارِ مکہ کی طرف سے حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں کو مختلف قسم  کی تکالیف دی گئیں۔622ء میں مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ مکرمہ سے مدینہ معظمہ کی طرف ہجرت کی۔آپ ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امانتیں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔جب آپ ﷺ مدینہ معظمہ پہنچے تو انصار نے آپ ﷺ کا شاندا ر استقبال کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’مدینہ میں میری اونٹنی جس گھر کے آگے رکے گی میں وہاں قیام کروں گا۔آپ ﷺ کی اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ توالیٰ عنہ کے گھر کے سامنے رکی  تو آپ ﷺ نے مدینہ شریف میں  حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر قیام کیا۔جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان میں ’’عقدِ مؤاخات ‘‘کیا یعنی انصار اور مہاجر کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور  خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔آپ کے مدینہ آنے سے  اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جنہوں نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا  ان میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ قائم ہو گیا۔آپ ﷺ کے یہاں تشریف لانے سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درماان ایک معاہدہ ہوا جسے میثاقِ مدینہ کہا گیا۔اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ 

غزوہ بدر:

 17 رمضان المبارک ۲ ہجری کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان میں غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔

غزوہ احد:

7شوال۳ ہجری میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لیے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

غزوہ خندق )احزاب:(

شوال ۵ ہجری میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔

غزوہ بنی قریظہ: 

 ذی الحجہ 5ھ کو یہ جنگ ہوئی۔ جس میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔

غزوہ بنی مصطلق: 

شعبان 6ھ میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔

غزوہ خیبر: 

محرم 7ھ میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔

جنگِ موتہ:

۵ جمادی الاول ۸ ہجری کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔

غزوہ فتح)فتح مکہ):

رمضان 8ھ میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباًًً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

غزوہ حنین:

 شوال 8ہجری میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

غزوہ تبوک:

 رجب ۹ ہجری میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔ 

حجۃ الوداع:

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔   اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباًًً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا۔ 

وصال:

حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے ۔ روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے۔ وصال  کے وقت آپ کی عمرمبارک  63  برس تھی۔


Comments

Popular posts from this blog

جابر بن حیان